مجبوری نے دھیرے دھیرے پانی ڈالا
ہم نے جیسے جیسے ہجر سہے جیون میں
تم ہوتے تو پہلے قدم پر گم ہو جاتے
رات کی آزادی نے آنکھ میں ڈیرے ڈالے
دل کی بربادی نے دن میں شہر بسایا
جتنے موسم آنکھوں کے دریا کے ہیں
اتنے موسم دل کے صحرا کے بھی ہیں
شور مچانے والے لوگوں کے اندر بھی
کوئی نہ کوئی خموشی بیٹھی رہتی ہے
اتنی سی اک بات پہ بھی تم روٹھ گئے ہو
جیون بھر کی باتیں کیسے سہہ پاؤ گے
رات گئے تک انہونی کا ڈر رہتا ہے
رات گئے تک دل میں ہول اٹھے رہتے ہیں
فرحت عباس شاہ