اپنے اعزاز کی تسکین بھی پوشیدہ ہے
فطرت کون و مکاں
سود و زیاں کی پابند
آزمائش کی حدیں ختم کہاں ہوتی ہیں
خود پرستی کی بھی تکمیل نہیں ہے ممکن
زخم پر زخم لگاتے جاؤ
درد پر درد سجاتے جاؤ
خون پر خون بہاتے جاؤ
اپنے اس جرم کا اخفاء بھی
بدل دیتا ہے کردار بظاہر لیکن
وہ جو باطن میں ہے باطن ہی میں ہے
ہم ضرورت سے زیادہ بھی ہوں چالاک تو پھر بھی کم ہیں
ہم فقط باعثِ دلداری ہیں
آزمائش جو ہوئی ہے ایجاد
آزمانے کو بھی کچھ چاہئیے
اس ہستی بے پایاں کو
راکھ میں پاؤں ڈبو لینا کوئی بات نہیں
بات آتش کی ہوا کرتی ہے
دور تک آگ بچھی ہے تو بچھی رہنے دو
پاؤں انگاروں کو سہتے ہیں تو پھر سہنے دو
فرحت عباس شاہ