آزمائش نہیں کرم کہیے

آزمائش نہیں کرم کہیے
وہ کچھ ایسے ہی یاد کرتا ہے
ایک جیسا سمے ہو تو ہم بھی
اُس نرالے کو بھول جاتے ہیں
پھول جڑتے ہیں اس کے ہونٹوں سے
اس کی آنکھیں کلام کرتی ہیں
چال چلتا ہے تو صبا تھم کے
احتراماً سلام کرتی ہے
اس کی اک اک ادا مری توبہ
منظروں کو سہانا پن بخشے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *