ہم نے تو ابھی خود کو سنبھالا بھی نہیں تھا
ہم ملتے کسے، ہاتھ بھی لگتے بھلا کس کے
ہم کو تو کوئی ڈھونڈنے والا بھی نہیں تھا
خاموشی تھی خاموشی میں غم گونج رہے تھے
اک لاش تھی اور گھر میں اجالا بھی نہیں تھا
در پر سگِ مضطر کی طرح لوگ کھڑے تھے
سینے سے ابھی دل کو نکالا بھی نہیں تھا
پھر کس کے نصیبوں سے تھیں ویرانیاں روشن
ہم نے تو کوئی درد اچھالا بھی نہیں تھا
ہم آئے تو کچھ باب کھلے عشق کے ورنہ
اس شہر میں تو غم کا حوالہ بھی نہیں تھا
فرحت عباس شاہ