اس سے پہلے کہ اثر ہی جائے

اس سے پہلے کہ اثر ہی جائے
رات سے کہہ دو گزر ہی جائے
یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار مرا
تیری امید میں گھر ہی جائے
منتظر بیٹھا ہوا ہوں کب سے
یہ نہ ہو اب کے نظر ہی جائے
کیا خبر سویا ہوا دکھ میرا
پھر تری یاد سے ڈر ہی جائے
موت تو موت ہے ہر صورت میں
راستہ، جائے سفر ہی جائے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *