اس جگہ مت ٹھہر کہ یہاں منزلیں خود ہی دیوار ہیں
ہاں مجھے علم ہے
تیری افسردہ آنکھوں میں جتنی شبوں کے عذابوں کے آثار ہیں
تیری لرزیدہ پلکوں کے نچے مری چاہتوں کے جو اقرار ہیں
سب کے سب جیسے انجانی مجبوریوں میں گرفتار ہیں
اور یہ بھی خبر ہے مجھے
کہ تری روح چاند اور ستاروں کی امید میں
آسمانوں کے رستوں پہ نظریں جمائے یہی سوچتی ہے
کہ پاکیزہ جذبوں کے دھوکے میں جو زخم کھائے کبھی بھر سکیں گے
تجھے کیا پتہ میں بھی اس کشمکش میں بڑی دیر سے مبتلا ہوں
کہ کیا تیری کمزور جاں پر عذابوں کے بڑھتے حسابوں کو دیکھوں
یا اپنے شکستہ نصابوں کو دیکھوں
تری بھیگی آنکھوں میں جلتے ہوئے زرد خوابوں کو دیکھوں
کہ اپنے ہزاروں سرابوں کو دیکھوں
مجھے علم ہے
کہ ترا پیار، تیری محبت، تری چاہتیں
منتظر اور شدت سے مائل بہ اصرار ہیں
پر مری جاں مرے پاس بھی تو
تمہارے لیے سچے جذبے نہیں ہیں
فقط کھوکھلی اور بے ربط ہمدردیاں ہیں
جو بے کار ہیں ساری بے کار ہیں
فرحت عباس شاہ