اس طرح کون بلاتا ہے سرِ بامِ فلک

اس طرح کون بلاتا ہے سرِ بامِ فلک
کون لا رکھتا ہے مہتاب بھلا قدموں میں
جس طرح میں نے ترے دل کی پزیرائی کی
کون یوں سنگ نوازی پہ ہوا ہے مائل
ایک تاریخ بھری ہے اسی محرومی و محرومی سے
موت اور حسرتِ محصور میں کچھ فرق نہیں
شورش ہجر سمٹ جائے اگر قریہ آسائش میں
موت ہی موت ہے پیمانوں کی
اور گھر جائے اگر یاس کسی وقت کے ٹھہراؤ میں
موت ہی موت ہے دیوانوں کی
راکھ کےڈھیر پہ بیٹھے ہوئے جلتے ہوئے ہم
خواب میں خواب کی دہلیز پہ چلتے ہوئے ہم
خود ہی خود پر کفِ افسوس بھی ملتے ہوئے ہم
آفتابوں کی طرح شام کو ڈھلتے ہوئے ہم
برف کی طرح کسی دھوپ کے آنگن میں پگھلتے ہوئے ہم
وقت کے جبر تلے پہلو بدلتے ہوئے ہم
اور سے اور نکھر آتے ہیں ہم صدموں میں
کون لا رکھتا ہے مہتاب بھلا قدموں میں
کون رستوں پہ ترستا ہوا پھرتا ہے کہ مل جائے کبھی ایک جھلک
یوں کہ ہر زخم کی بڑھ جائےذرا اور چمک
اس طرح کون بلاتا ہے سرِ بامِ فلک
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *