زلف لہرائے تو ساون کی گھٹا آتی ہے
شہر جاتی ہے تو ڈرتا ہوں کہ ہر بار ہوا
میرے بارے میں نئی بات اڑا آتی ہے
سانس لیتا ہوں تو روتا ہے کوئی سینے میں
دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے
راستہ دینے لگے بکھرے ہوئے پتے کسے
کس جنازے کو لیے باد صبا آتی ہے
جاگتے رہتے ہیں جب تک تو گھٹن رہتی ہے
لوگ سوتے ہیں تو صحنوں میں ہوا آتی ہے
دل کسی نار کا سینے میں لیے پھرتا ہوں
یار کے ذکر پہ آنکھوں میں حیاء آتی ہے
اس کی پیشانی سے آتے ہیں اجالے مجھ تک
اس کی زلفوں سے مری سمت گھٹا آتی ہے
تیرے مل جانے کی امید تواتر سے مجھے
روز لے جا کے تیری رہ پہ بٹھا آتی ہے
تخت سے تختے پہ لے آؤ تو پھر بھی کیا ہے
ہم کو ہر ڈھنگ میں جینے کی ادا آتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)