اس نے ایک بار مجھ سے پوچھا
کہ بتاؤ
مجھے کتنا یاد کرتے ہو
میں نے کہا
بہت زیادہ
اس نے دوبارہ سوال کیا
کہ پھر بھی بتاؤ تو سہی آخر کتنا
میں نے کہا
بہت، بہت، بہت زیادہ
میرا جواب سن کر
وہ زیر لب دھیرے سے مسکرائی اور کہا
اب مجھ سے بھی تو پوچھو
اور جب میں نے پوچھا
تو اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی
اور ہلکا سا گلابی رنگ اس کے چہرے پہ آ کے گزر گیا
اس نے مجھے ڈوبی ہوئی نظروں سے دیکھا
اور پھر پلکیں جھکا کے بولی
پاگل یاد تو انھیں کیا جاتا ہے
جنھیں آدمی بھول جائے
فرحت عباس شاہ