اُس نے جب بھی مجھے یقین دلایا

اُس نے جب بھی مجھے یقین دلایا
کہ وہ صرف مجھ سے محبت کرتی ہے
میں نے یقین کر لیا
لیکن میں نے اسے اگر کبھی
دوسرے لوگوں سے رسم و راہ رکھنے سے منع کیا
تو وہ ناراض ہوئی
اور اس نے ہمیشہ یہی کہا
کہ اُس کا کسی سے بھی وہ تعلق نہیں جو میرے ساتھ ہے
اور یہ کہ دوسروں سے تو بس دنیا داری ہے مجبوراً
بہر حال اگر پھر بھی مجھے پسند نہیں تو وہ آئندہ کسی سے نہیں ملے گی
لیکن کچھ ہی دنوں بعد
میں نے اسے پھر کسی کے ساتھ اک تفریحی پارک میں دیکھا
وہ دونوں خوب بنے سنورے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
ہنستے مسکراتے اردگرد کے ماحول سے تقریباً لا تعلق
چل رہے تھے
مجھے ایک شدید جھٹکا لگا
اور یوں محسوس ہوا جیسے سر میں بھونچال آگیا ہو
پاؤں وزنی ہو گئے اور جسم بے جان
سانس لینا دوبھر ہو گیا
میں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے
پیشانی پر سے پسینہ اور آنکھوں پر سے اندھیرا صاف کیا
اور کسی شکست خوردہ بادشاہ کی طرح پلٹ پڑا
جس کے پاس کچھ بھی نہ بچا ہو، تن کے کپڑوں کے سوا
اگلے دن ہزار کوشش کے باوجود مجھ سے رہا نہ گیا
اور میں نے پوچھ ہی لیا
پہلے تو اس نے چونک کے اور تھوڑا گھبرا کے مجھے دیکھا
اور پھر ہنستے ہوئے کہا
ارے وہ۔۔۔ وہ تو احمق بُدھو سا میں تو بس بوریت دور کرنے کی خاطر۔۔
تم بھی کتنے پاگل ہو یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی کھلکھلا کے
میں بھی اس کے ساتھ ہی ہنسنے لگا، پتہ نہیں خوشی سے یا دکھ سے یاد نہیں
البتہ اتنا یاد ہے کہ ہنستے ہنستے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *