جاناں
میں نے اب کے سال بھی سبز رتوں کا پہلا پھول
اک تیری خاطر شاخِ شجر سے توڑ کے
اپنی زرد کتاب میں لا رکھا ہے
کوئی نہ جانے
کبھی کوئی آوارہ بھولا بھٹکا بادل
عمر کے ترسے پیاسے دشت کی
پل میں پیاس بجھا جاتا ہے
کوئی نہ جانے
بعض اوقات اک بھولی بسری ہوئی دعا بھی
ایسے پوری ہو جاتی ہے
جیسے غیر آباد جزیرے
رستہ بھول کے آنے والے لوگوں سے بس جاتے ہیں
یوں میں نے اب کے سال بھی جاناں
سبز رتوں کا پہلا پھول اک تیری خاطر
شاخِ شجر سے توڑ کے اپنی زرد کتاب میں لا رکھا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)