استہزاد

استہزاد
لیکھ بے سمت و تعین
سوچ بے دیوار و در
من بھی نادیدہ کہاوت کی طرح بس اک کہاوت
دل
مہاوت بن کوئی فیلِ سدا بد مست
اور جاں
کپکپاتی
پھر بھی اکثر گنگناتی اوج میں
جس طرح چڑھتی جوانی موج میں
اک طرف
یہ سارا کچھ سنجیدگی کے سب لوازم سے مزین
سب سے پُر
اک طرف ان پہ کوئی ہنستا ہوا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *