اسرافیل سے پہلے

اسرافیل سے پہلے
موت مرتی نہیں ہے
مری آنکھ میں دور تک
اَدھ سُنے گیت کی خامشی
میرے چہرے کی پت جھڑ
مرے پیرہن کی سفیدی
مری راکھ میں انگلیاں پھیرتی شام
تنہا زمیں
خاک
اور پاؤں میں ان گنت بیڑیاں
سالہا سال کی داستاں
موت مرتی نہیں
درد کا سائباں
دھوپ کیسے کٹے
سردیوں کا بچھونا
سنو
دانت کیوں نہ بجیں
یخ ہوا کے ٹھٹھرتے مصلّے پہ
اور سرد سجدے کی دہلیز پر
کھوکھلے دن کے تھیلے میں کچھ بھی نہیں
روکنے کے لیے
روکنے کے لیے چونکہ کچھ بھی نہیں
رات ڈرتی نہیں
موت مرتی نہیں
ایک تلوار لٹکی ہوئی آسماں کے تلے
ایک رسی ہے
اور اک اَنی
زندگی اب کسی طور بھی ان صلیبوں سے نیچے اترتی نہیں
موت مرتی نہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *