اور کبھی چاند کے ہالے سے مجھے دیکھتا ہے
ہر کوئی اپنے طریقے سے مجھے سوچتا ہے
ہر کوئی اپنے حوالے سے مجھے دیکھتا ہے
اعتبار ایسے اُٹھا ہے کہ ، مِرا سایہ بھی
رات دن درد کے جالے سے مجھے دیکھتا ہے
دشت اِک اور مِری رہ مِیں بچھا دیتا ہے
عشق جب رُوح کے چھالے سے مجھے دیکھتا ہے
درد ہوں ، خُوب چمکتا ہُوں ستارے کی طرح
جب کوئی دل کے اُجالے سے مجھے دیکھتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)