آسماں، آسماں، آسماں
نیل گوں بے کراں آسماں
بدلیوں کی اڑن طشتری
دل کا آرام لے آئی ہے
صبح کاذب کی پہلی کرن
تیرا پیغام لے آئی ہے
دیکھا کتنا عجب ہے سماں
آسماں، آسماں، آسماں
لہلہاتی ہوئی جارہی ہیں
ان گنت پنچھیوں کی قطاریں
گنگناتی ہوئی جارہی ہیں
میرے من میں محبت کی ڈاریں
ایک تو ایک میں رازداں
آسماں، آسماں، آسماں
چاند تاروں کی بارات میں
سج گیا رات کی رات میں
جانے کیا ہے تری بات میں
چاندنی آگئی ہاتھ میں
کتنا رنگیں ہے سارا جہاں
آسماں، آسماں، آسماں
فرحت عباس شاہ