آسمانوں کی قسم

آسمانوں کی قسم
آسمانوں کی قسم
ہم ستاروں کی طرح سوچتے ہیں
ٹمٹماتے ہوئے لو دیتے ہوئے
مسکراتے ہوئے ضو دیتے ہوئے
ہم جو روئیں بھی تو آنکھوں سے برستے آنسو
تیرے باغوں کی ہوا مانگتے ہیں
تیرے وہ باغ جہاں پیڑوں کی لہراتی ہوئی چوٹی پر
دن کو بھی چاند نظر آتا ہے
ڈوبتی شام درختوں پہ بکھرتی ہے تو اس سانولے منظر کی فضا
روح میں دور تلک روشنی بھر دیتی ہے
بادبانوں کی قسم
ہم کناروں کی طرح سوچتے ہیں
جھیل کے قرب سے مخمور پرندے کی طرح
ہم تجھے دیکھتے تھکتے ہی نہیں
تیری موجوں کے تموّج کی حفاظت کے لیے
پیش کرتے ہیں تجھے ہر لمحہ
اپنے مضبوط ارادوں کے بدن
تیرے دشمن کی گنہگار اندھیری آنکھیں
جو کبھی خوف کی درزوں سے تجھے جھانکتی ہیں سازش سے
بدنمائی انھیں ڈس جاتی ہے
آشیانوں کی قسم
ہم پرندوں کی قطاروں کی طرح سوچتے ہیں
تیری آزاد فضاؤں میں ہواؤں کی طرح
چہچہاتی ہوئی، اڑتی ہوئی، لہراتی ہوئی
تیرے ہونے سے ہمیں جتنا بھی ہے اپنے سکھوں کا احساس
اصل سے پھر بھی بہت ہی کم ہے
اس تشکر سے ہر اک آنکھ کا دامن نم ہے
جو ترے دم سے ہوا ہم کو نصیب
ہم ستاروں کی گزرگاہوں میں بھی ہوں گے تو چاہیں گے تجھے
ہم بہاروں کی حسیں بانہوں میں بھی ہوں گے تو چاہیں گے تجھے
ہم کو جہانوں کی قسم
ہم سہاروں کی طرح سوچتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *