سرِ اضطراب کفِ ضعیف لرز گیا
یہ جو ناتوانی کا خوف ہے، یہ جو رائیگانی ہے عمر کی
یہ جو اختتام سے قبل صورتِ اختتام کا اہتمام ہے کائنات کی روح میں
کسی طور کرب و بلا کے دیو سے کم نہیں
کوئی غم نہیں بھلے بِن بلائے نَفَس نَفَس پہ اجل اجل کا ورود ہو
مگر اس طرح
کہ پتہ چلے تو تمام پانی سروں سے اُونچا نکل کے جم بھی چکا ہو سب کے نصیب پر
سرِ اضطراب کفِ ضعیف لرز گیا
سرِ چشمِ رنج کئی چراغ پئے یقین مَسَل اُٹھے
کسی دھیرے دھیرے سے سرد ہوتی ہوا کا دل
کبھی بجھ اٹھے، کبھی جل اٹھے
سرِ احترامِ خلش ہمیشہ سوال اٹھتا ہے سوچ میں
اٗسے ڈر نہیں تو پچھاڑ دیتا ہے کیوں ہمیں
اسے وہم ہے تو یہ سلسلہ، یہ اَلابَلا بھی ہے کس لیے
یہ وضاحتیں، یہ فصاحتیں، یہ بلاغتیں
یہ نمو نمود بھی کس لیے
یہ تمام کام جو انتظام کی آڑ میں ہے سجا ہوا
کسی دن تہوں میں جو رَعشہ بن کے اتر گیا
تو خبر رہے کوئی اختتام ہو اس کے معنی ہیں اختتام
اگرچہ وقت بہت پڑا ہے ابھی
بہت سی تسلیاں بھی پڑی ہوئی ہیں غرور میں
یہ الگ کہ سر پہ ہے خاتمہ
بڑا دور لگتا ہے آنکھ کو
مگر ایسا ویسا وقاف، ساری یہ آگہی بھی تو ہے کہیں
اسی واسطے سرِ اضطراب کفِ ضعیف لرز گیا
فرحت عباس شاہ