وجہِ شہرت بھی یہی ہے اپنی
بھیس بدلیں یا چھپا لیں خود کو
لاکھ بھر لیں کوئی بہروپ مگر دکھ ہمیں پہچانتا ہے
زندگی اپنی ہوس ہی سے نہیں ہے فارغ
بے گناہی کا کوئی انت اگر ہو بھی تو بے فائدہ ہے
ہم غلامی کے گنہ گار ہیں کچھ صدیوں سے
ذات کا کرب ندیدوں کی طرح
ہم پہ جھپٹ پڑنے کو بے تاب نظر آتا ہے
صبر بے کار ہے بے مہر تسلی کی طرح
خود کو غرقاب سمجھ لینے کا بھی کوئی نہیں ہے امکاں
آب تو تہہ میں بھی ہے آپ ہر اک دریا کی
ساحلوں کا کوئی دھوکہ بھی نہیں ہے موجود
درد کی بھی کوئی آسائشِ خفتہ ہے تو پھر
بے قراروں کو کسی روز نظر بھی آئے
ہم کسی ہجر کے پروردہ اگر ہیں
تو نتائج میں کہیں وصل بھی ہو
آخر کار اگر تھک ہی گئی جان تو پھر
آخر کار اگر پھٹ ہی گیا دل تو کہو کیا ہو گا
آخر کار اگر آ ہی گیا آخر کار
فرحت عباس شاہ