اب بھی ہے یہی اس دلِ ناکام کی خواہش
سستانا مجھے موت کے منظر کی طرح ہے
مر جاؤں جو کر لوں کبھی آرام کی خواہش
ہر شخص لئے پھرتا ہے آغاز کا سودا
دِکھتی ہی نہیں ہے کبھی انجام کی خواہش
اک یہ بھی پریشانی ہے اُس کے مرے مابین
اُس کو ہے سکوں اور مجھے کام کی خواہش
ہر بات میں اک ضبط ضروری ہے وگرنہ
لے ڈوبے گی اک روز تمہیں، نام کی خواہش
فرحت عباس شاہ