ہم لوگ محبت کی پناہوں میں رہے ہیں
ہم لوگ وفادار ، تُجھے بُھولے نہیں ہیں
ہم لوگ مُسافِر ، تری راہوں میں رہے ہیں
اِک زردی ، فرقت مرے چہرے پہ رہی ہے
کُچھ خُون کے چھینٹے مری آہوں میں رہے ہیں
ہر بات پہ خاموش رہیں بن کے رعایا
دِیوانے بھلا یُوں کبھی شاہوں میں رہے ہیں
ہر ڈھب کی عدالت کو سمجھتے ہو بہت خُوب
لگتا ہے جناب آپ گواہوں میں رہے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)