صدیوں یونہی رونے کو تری یاد بہت ہے
پھرتا ہے تو پھرنے دے اسے شہرِ وفا میں
اک غم ہی تو اس دنیا میں آزار بہت ہے
کہہ دو کہ سمندر سے پلٹ آئیں ہوائیں
بارش کو مرے اشکوں کی بنیاد بہت ہے
یہ کیا کہ بلکتا ہی پھروں شام و سحر میں
تو رب ہے تو پھر ایک ہی فریاد بہت ہے
میں زخمی پرندے کی طرح پھرتا ہوں بن میں
سر پر ہے مرے وقت جو صیاد بہت ہے
فرحت عباس شاہ