اک محبت کے سوا کوئی نہیں کوئی نہیں

اک محبت کے سوا کوئی نہیں کوئی نہیں
میں اکیلا ہوں مرا کوئی نہیں کوئی نہیں
میں نے پوچھا کہ ترا کون ہے اس دنیا میں
اس نے ہولے سے کہا کوئی نہیں کوئی نہیں
ہے ہر اک شخص ملوث مری بربادی میں
ان میں بے جرم و خطا کوئی نہیں کوئی نہیں
اپنے دن رات کی بیچینی کو ضائع ہی سمجھ
اے دل زار ترا کوئی نہیں کوئی نہیں
اپنی آواز ہی اب لوٹ کے دیتی ہے جواب
ہے کوئی اہل وفا! کوئی نہیں کوئی نہیں
میں تو اس حال میں بھی عالم ایمان میں ہوں
میں نہیں کہتا خدا کوئی نہیں کوئی نہیں
جس سے رشتہ ہو خفا اس سے ہوا جاتا ہے
تجھ سے اے عمر، خفا کوئی نہیں کوئی نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *