تو ابھی تک دل ویران میں ہے
شور برپا ہے تری یادوں کا
رونقِ ہجر بیابان میں ہے
پیار اور زندگی سے لگتا ہے
کوئی زندہ دلِ بے جان میں ہے
آج بھی تیرے بدن کی خوشبو
تیرے بھیجے ہوئے گلدان میں ہے
زندگی بھی ہے مری آنکھوں میں
موت بھی دیدہ حیران میں ہے
دل ابھی نکلا نہیں سینے سے
ایک قیدی ابھی زندان میں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)