برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی رُک جائے چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ تو وقت کے بس میں ہے کہ کتنی مہلت دے
ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
موم کا بدن لے کر دھوپ میں نکل آنا
اور پھر پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
سوچ کی زمینوں پر راستے جُدا ہوں تو
دُور جا نکلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)