میں اپنا آپ تھکن سے نکال لایا تھا
اسے خبر تھی کہ کس طرح روح کھینچتے ہیں
وہ مجھ کو میرے بدن سے نکال لایا تھا
کسی کو تم بھی اٹھا لائے تھے ہواؤں سے
کسی کو میں بھی گھٹن سے نکال لایا تھا
وہ میرے دل میں پڑا ہے سفید کپڑوں میں
میں اس کا عکس کفن سے نکال لایا تھا
لہو لہو تھی مری کشت جاں میں جب اس کو
غموں کے رقص کہن سے نکال لایا تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)