آگہی

آگہی
صحرا آنکھیں
آخر دریاؤں میں رہنا سیکھ گئی ہیں
پیاس بھی باقی
اور سیراب بھی حد سے زیادہ
دل بھی اب تو
گھبراہٹ کی سرد فضا میں
آخر سسک سسک کر ہنسنا سیکھ گیا ہے
ہم متضاد اسیری کی عادت میں کچھ خاموش ہوئے تو
تم نے جانا
ہم نے سب کچھ ہار دیا ہے
تم نے جانا
ہم نے اپنی ہمت کے ہذیان پہ اپنا رنج سُخن بھی وار دیا ہے
یہ بھی جانا سانسیں بھی اب
اک بوجھل امکان کے نیچے
تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا یخ بستہ ہو جانا سیکھ گئی ہیں
اور سانسوں کا
اتنا یخ بستہ ہو کر بھی اک ان دیکھی آگ میں جلنا جاری ہے
تم نے ہم کو
اپنی ذات میں گم ہو کر جب بھی جانا ہے
باہر تم آؤ تم اس گُم سے باہر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *