المیہ جائے کہاں
المیے سے ہی بنا ہوں میں کسی ہجر کے مندر کی طرح
آئے دن دکھ کی سیہ دھوپ مجھے ڈستی ہے
آئے دن خوف کی رسی مرا کمزور بدن
اس قدر زور سے کستی ہے کہ چیخیں ہی نکل جاتی ہیں
ہاتھ ڈالوں کبھی سونے کو تو مٹی بن جائے
ہاتھ ڈالوں کبھی پانی میں تو جل جاتا ہے
میں کبھی دن کو پکاروں تو پلٹ آتی ہے شب
المیہ جائے کہاں
روز ویرانوں سے خط لکھتا ہے
اور خود میری ہی بربادی کے صحرا میں مجھے ڈھونڈتا ہے
خواب دیکھوں تو یہ دھڑکا سا لگا رہتا ہے بٹ جائے نہ بینائی مری
المیہ ہارے ہوئے لوگوں کو چھو جاتا ہے
بے سبب راکھ اڑائیں تو سلگ اٹھتی ہے ویرانی دل
خاک اڑتی ہے سر دشت وفا
بے قراری کوئی اڑتی ہوئی آتش بن کر
آن پڑتی ہے کسی فوج کے لشکر کی طرح
المیہ جاتا نہیں
سکھ کبھی آتا ہی نہیں
المیہ جائے کہاں
بند ہے سارا جہاں
فرحت عباس شاہ