الوداع پاکستان

الوداع پاکستان
آزادی ایک عجیب شے ہے
انسانی آزادی اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب شے ہے
جب ہم اپنی مرضی سے مسکرا
اور اپنی مرضی سے رو سکتے ہیں
جب ہم اپنی مرضی سے سانس لے سکتے ہیں
لیکن سانس روک نہیں سکتے
نا اپنا نہ کسی اور کا
چاہے ہماری مرضی ہی کیوں نا ہو
راتوں اور دنوں کی اپنی آزادی ہوتی ہے
چاہے امریکہ کے ہوں
یا افریکہ کے
ان سے کوئی زبردستی نہیں کر سکتا
نہ انہیں اپنے مقررہ وقت سے پہلے کوئی جانے سے روک سکتا ہے
اور نہ دوبارہ آنے سے
آسمان کی اپنی آزادی ہے
آسمان ہمیں بھی آزادی دیتا ہے
اور کہیں آنے جانے سے روکتا نہیں ہے
آسمان کی کوئی حد نہیں
اور نا ہی کوئی سرحد ہے
یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات ہم صرف اپنے گھر کی چھت تک ہی جا سکتے ہیں
اور بعض اوقات کسی سیارے تک
اور کبھی تو ہم ایک چھوٹی سی چھلانگ بھی نہیں لگا سکتے
اگر دنیا ایک گاؤں ہے
تو پھر تقسیم کیوں ہے
اور اگر تقسیم ہے تو دیواروں میں کیوں تقسیم ہے
کیا دنیا کے سارے انسان ایک جیسے ہیں؟
اور پھر اچھے اور برے انسان
جو ایک دوسرے کی آزادی کو مارتے رہتے ہیں
ایک اچھے انسان کی آزادی
ایک برا انسان مار دیتا ہے
اور ہم بہت ساری لکیروں میں تقسیم ہو جاتے ہیں
ہم جتنی آزادی اپنے لیے مانگتے ہیں
اتنی دوسروں کو نہیں دیتے
اور سرحدیں ابھرنا شروع ہو جاتی ہیں
اور دیواریں راستے روکنے لگتی ہیں اور زمین جگہ جگہ سے بدصورت ہوتی جاتی ہے
بادلوں کو بار بار ٹھوکریں لگتی ہیں
اور درخت بیمار ہو جاتے ہیں
کبھی کبھی صرف اتنا ہوتا ہے
کہ حادثے اور آفات
سب حدیں مٹا دیتے ہیں
اور ہم ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں
اور ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے ہیں
مصیبتیں ہمیں یاد دلاتی ہیں
کہ آزادی بہت بڑی خوشی ہے
اور انسانی آزادی تو سب سے بڑی خوشی ہے
()
جیون جتنا اجڑ گیا ہے
اتنا ہی بہت ہے
پتھر آنکھوں سے زیادہ بھاری ہوتے ہیں
تھکی ہوئی، غمزدہ آنکھوں سے
نوکیلے اور کھردرے پتھروں کو
ہشاش بشاش کب تک دیکھوں
اور خون کے آنسو روتی آنکھوں کو
کب تک سہوں
جو لوگ کراہوں کی بھی بولی لگا دیں
اور بیماروں پر ٹکٹ لگا دیں
ہلاکت کا چندہ وصول کریں
انہیں اور زیادہ کیسے برداشت کروں
زخموں پر ٹاٹ باندھ باندھ کے
اب تک جی آیا ہوں
سخت زمین نے
اور نوکیلی کنکریوں نے
پاؤں تو مضبوط کر دیے ہیں
دل اور زیادہ نرم ہو گیا ہے
مصیبتیں جتنی سخت آتی ہیں
دل اتنا نرم پڑتا ہے
سوچوں نے غموں کی گٹھڑیاں اٹھا رکھی ہیں
خیالوں نے خدشے لاد رکھے ہیں
اور خواب خو ف سے بھرے پڑے ہیں
اور اب تو آنسو بھی پھیکے پڑ گئے ہیں
روتے روتے آنکھوں کا نمک ختم ہو گیا ہے
مسلسل اداسیوں نے
خون کی مٹھاس مار ڈالی ہے
پوہ کے یخ بستہ دنوں میں بھی
دھوپ پڑتی ہے
تو بدن چٹکنے لگتا ہے
ماس میں دراڑیں پڑ گئی ہیں
ماس خور پھر بھی نہیں ٹلتے
کتابیں اور عبادت گاہیں
اور تعلق
اور وعدے
امدادیں اٹھا کر لے آتے ہیں
اور سروں پر رکھ کر واسطے دیتے ہیں
اور قسمیں اٹھاتے ہیں
اور خون چوسنے بیٹھ جاتے ہیں
کب تک
آخر کب تک
جیون جتنا اجڑ گیا ہے اتنا ہی بہت ہے
آنکھیں، پتھر سے بس اتنا ہی الجھ سکتی ہیں
اور سیاہ پتھر تو قتل گاہوں کی راتوں سے بھی زیادہ بھاری ہوتے ہیں
()
اپنی مٹی سے علیحدہ ہونا
کتنا تکلیف دہ ہے
علیحدہ ہونے سے پہلے جان لینا مشکل ہے
اور اپنی مٹی سے بچھڑنا اور بھی زیادہ اندوہناک ہے
پاکستان
کیا تمہیں یاد ہے
میں تمہارے لیے کتنا رویا تھا
جب کسی نے تمہیں نہایت درمیان سے توڑ ڈالا تھا
تمہارے وجود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نا مکمل کر دیا تھا
میں اور کچھ نہیں کر سکا تھا
بس رو دیا
اور اپنے آنسوؤں کو تمہارے غم کی دھوپ
اور غصے کی آگ پر ڈال ڈال کے جلاتا رہا
جیسے جیسے آنسو جلتے رہے
ویسے ویسے دکھ پگھلتا رہا
پھر میں آنسوؤں اور دھوپ کے اس سفر سے
واپس آ گیا
مجھے لگا تمہارے باغ میرے منتظر ہیں
اور تمہارے دریا مجھے بلا رہے ہیں
اور تمہارے شہر میرے راستوں میں کھڑے ہیں
اور تمہارے جنگل مجھے دیکھ رہے ہیں
اور تمہارے موسم میرے ساتھ چل رہے ہیں
اور تمہارے صحرا بہت آسان ہو گئے ہیں
اور تمہارا آسمان بہت شفاف ہو گیا ہے
میں تمہاری طرف لوٹ آیا
اور تمہیں زیادہ شدت سے چاہا
اور تمہارے لیے دعاؤں کے قافلے روانہ کیے
اور اپنے بازوؤں کی محنت تم پر واری
تمہاری فضاؤں میں
خیالوں کے کبوتر ارائے
اور خدا کو پیغام بھجوایا
اور تمہاری زمین پر خوابوں کی فصلیں بوئیں
اور اپنا لہو حاضر کیا
روح تمہارے راستوں پر ڈال دی
یہاں تک کہ تمہاری سر زمین کے کونوں کھدروں سے
اور بلوں اور درختوں کے سوراخوں سے
عجیب و غریب انسان بر آمد ہوئے
موٹی گردنوں اور بڑے بڑے نتھنوں والے چوڑے دہانوں اور نوکیلے
دانتوں والے
اور تمہارے تمام راستوں، ٹیلوں اور چناروں پر
کھڑے نظر آئے
اور میری روح اور میرے لہو کی طرف لپکے
اپنے اپنے دانت کٹکٹاتے اور زبان لٹکائے
میری طرف بھاگ پڑے
اور ہر اس شخص کی طرف لپکے
جو تمہارے لیے اپنی نازک اور پاکیزہ جان لیے کھڑا تھا
پاکستان
کیا تمہیں پتہ ہے کہ اب تمہارے اندر
ایسے لوگوں کی آبادی ایک سو ایک فی صد ہے
اور مجھ جیسوں کی
اتنی ہی
جتنی کہ ایک سو ایک کے بعد باقی بچتی ہے
یہ ہمارے ارمانوں کی گردنوں پر پنجے مارنے والے
اور بچارے پیٹوں پر لات
تمہاری تمام تر ہستی کے گرد گھیرا تنگ کر چکے ہیں
لوگ جتنے سڑکوں پر خوفزدہ ہیں
اس سے کہیں زیادہ گھروں میں ہیں
ہر اگلے چوک میں بارود کی بو
نتھنوں کو چیرتی ہوئی سینے میں داخل ہوتی ہے
اور ایک بدبو دار آگ بھر دیتی ہے
صبح سویرے گھروں سے نکلنے والے رزق کے متلاشی
گھر کو لوٹتے ہی نہیں
ان کے لواحقین مردہ خانوں سے ان کی لاشیں پہچان کر
واپس لے آتے ہیں
اور وہ جن کی پہچان ہو نہیں پاتی
انہیں دکھ ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہی ہوا
جو مرنے سے پہلے ہوتا آیا ہے
بتاؤ میں تمہاری کونسی فصلوں پر آنکھیں وار دوں
ان فصلوں پر جن میں زہریلی پتیوں والے پودے
اگ آئے ہیں
اور خود دیواروں ہی کو اندر اور باہر سے چاٹتے جا رہے ہیں
تمہاری فضاؤں میں
زندگی کم ہے
اور موت بہت زیادہ ہے
تحفظ ہے ہی نہیں
اور خوف بے انتہا ہے
روزی مشکل ہے
اور جرم نہایت آسان ہو گیا ہے
نیکی اجنبی ہے
اور گناہ کی رسم چل نکلی ہے
تمہارے قاتلوں نے تمہاری باگ ڈور سنبھال لی ہے
تمہیں لوٹنے والے
تمہاری پہریدار بن گئے ہیں
اور تمہیں توڑ دینے والے، ٹکڑا ٹکڑا کر دینے والے،
بکھیر دینے والے
تمہاری حفاظت کے دعوے کر رہے ہیں
میں کیا کروں
میں کیا کروں
تمہارا قاتل طاقتور ہے
اور میرے آنسو بہت کمزور ہیں
میرے آنسو تمہیں ٹوٹنے سے کیسے بچائیں
تمہیں لوٹنے والے بہت طاقتور ہیں
اور میری چیخ و پکار بہت نحیف ہے
تمہارے دشمن مکار اور عیار ہیں
اور میں تو صرف ایک شاعر ہوں
میں تو صرف ایک شاعر ہوں
پاکستان
میرے پیارے پاکستان
میری جان
میرے دل
میری روح
میری ماں
میری محبت
مری عزت
میرے دلارے پاکستان
الوداع
الوداع میرے پیارے پاکستان
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *