الوداع!
جاؤ!
خدا حافظ
اشکوں سے بھری ہوئی آنکھوں کو
صاف دکھائی نہیں دیتا
جاؤ!
اللہ نگہبان
یا بہہ جائیں
درد دل میں رہے
یا وریدوں میں اتر جائے
کشتیاں ساحلوں کی طرف آتی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں
جاتی ہوئی تو رفتہ رفتہ اوجھل ہوجاتی ہیں
معدوم
اور پھر غائب
دنیا سے نہ سہی
آنکھوں کی دنیا ہی سے سہی
لیکن آنے والے چاہے آئیں یا نہ آئیں
جانے والوں کو جانا ہی ہوتا ہے
خوشیوں سے بھرے ہوئے لمحوں
اور درد سے بھرے ہوئے آنسوؤں کی طرح
اور محبت کی طرح
محبت بھی نہیں ٹھہرتی
ٹھہر جائے تو دل چل پڑتا ہے
مسافر ہو جاتا ہے
آنسو آنکھوں میں رہیں
درخت بھی مسافر ہوتے ہیں
اور ایک دن چلے جاتے ہیں
اپنی تمام تر چھاؤں اور ٹھنڈک سمیت
اور دریا بھی
ہم گھروں کو نا بھی چھوڑیں
اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا
کسی بھی بات سے فرق نہیں پڑتا
تمہارے جانے کے علاوہ بھی
تمہارے جانے سے بہت فرق پڑتا ہے
لیکن پھر بھی
تم جاؤ!
الوداع!
اللہ نگہبان
فرحت عباس شاہ