امریکہ! میرے دوست
تمہیں معلوم ہے
زندگی دن بدن بیک وقت آگ اور برف کی طرف بڑھ رہی ہے
آگ سے بنے ہوئے دن
اور برد سے بنی ہوئی راتیں
تمہیں پتہ ہے برف کی شدت بھی جلا ہی دیتی ہے
اپنی یخ بستگی کی انتہا سے سفید اور نیلے کوئلوں میں بدل دیتی ہے
انیلا کہہ رہی تھی
امریکہ اس آگ پہ پانی ڈالے گا
اور برف کو پگھلا دے گا
پھر کوئی جل کر راکھ نہیں ہو گا
اور جم کر نیلا نہیں پڑ جائے گا
میں نے انیلا سے پوچھا
کیا امریکہ، ہیرو شیما اور ویت نام سے واپس آگیا ہے
اس نے کہا بہت دن ہوئے ایک لمبا عرصہ
میں بہت ڈرا ہوا تھا
اس نے مجھے بتایا
یہاں جب کوئی خوفزدہ ہوتا ہے
تو امریکہ آ کے اسے حوصلہ دیتا ہے
اسے شفقت سے اپنی گود میں بھر لیتا ہے
انیلا نے مجھے بتایا
میں ایک دفعہ ایک خواب میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی
تب امریکہ نے مجھے بہت پیار کیا تھا
اور بتایا تھا کہ کسی میں اتنی جرات نہیں جو انیلا کی طرف غلط آنکھوں سے دیکھے
امریکہ میرے دوست
تم کتنے مہربان ہو
تم کتنے اچھے ہو
تمہارے باسی تمہاری محبتوں پر خوش ہیں
اور اپنے معصوم اور گلابی ہونٹوں سے تمہارے لیے دعا کرتے ہیں
اور اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے تمہاری مٹی پر بوسے دیتے ہیں
اور تمہیں اپنی شفیق ماؤں کی گود کی طرح محسوس کرتے ہیں
تمہارے باغ اور تمہارے درخت
تمہارے رہنے والوں سے باتیں کرتے ہیں
اور انہیں محبت کے نغمے سناتے ہیں
اور تمہارے دریا
ساحلوں پر چلنے والوں کو دیکھ کر کھلکھلاتے ہیں
اور ان کی طرف مسکراہٹیں اچھالتے ہیں
عدیم کہتا ہے
وہ ایک دفعہ مر گیا تھا
الاسکا کے یخ بستہ پانیوں سے مچھلیاں پکڑتے ہوئے
ایک دن اچانک موت نے اس کے دل کو پکڑ لیا تھا
عدیم کہتا ہے وہ ہاسپٹل میں پہنچتے ہی مر گیا تھا
لیکن امریکہ نے اسے زندہ کر دیا
امریکہ نے اسے ٹھہرے ہوئے دل کو حرکت دینے والی مشینوں کے ذریعے
زندہ کر دیا تھا
عدیم کہتا ہے
پھر وہ ایک دفعہ دوبارہ مر گیا تھا
اور یہ امریکہ ہی ہے جس نے اسے دوبارہ زندہ کیا
اپنی روح پرور مسیحائی سے
اور انسانی ہمدردی سے
وہ کہتا ہے
اس نے سب سے زیادہ خوبصورت سبز رنگ امریکہ کے درختوں کا دیکھا
اور سب سے زیادہ خالص اور شفاف نیلا رنگ امریکہ کے آسمان کا دیکھا
اس نے کہا میں نے پتھروں سے باتیں کیں
اور مخلص پتھروں نے مجھے جواب دیا
میں نے یسوع مسیح سے کہا میں تمہارا مہمان ہوں
میں نے اپنی زندگی کی پہلی اذان امریکہ میں دی
اور مجھے اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہوا
عدیم کہتا ہے
امریکہ کسی انسان کی زندگی بچاتے ہوئے
نہ رنگ دیکھتا ہے نہ نسل
نہ اچھا نہ برا
بس زندگی بچاتا ہے
امریکہ مرے دوست
تم تو زندگی بچاتے ہو
اور انسانوں سے محبت کرتے ہو
قحط میں
اور طوفانوں میں
اور بیماریوں میں
دنیا کے کسی بھی خطے، رنگ اور نسل کے انسانوں کی مدد کرتے ہو
لیکن ابھی بہت سارے سوال اٹھتے ہیں
تم عراق کو کہتے ہو حملہ کرو
اور کویت کی مدد کو پہنچ جاتے ہو
دنیا میں جہاں جہاں سے تیل برآمد ہوتا ہے
تم ہر اس جگہ کو اپنے لیے پسند کرتے ہو
اور پھر وہاں پہنچ بھی جاتے ہو
اور پھر وہاں آباد بھی ہو جاتے ہو
اپنی تمام تر طاقت اور منصوبہ بندی سمیت
تم افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے لیے اسلحہ اور پیسے دیتے ہو
اور اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے کسی بھی دو ملکوں کو آپس میں لڑوا سکتے ہو
امریکہ میرے دوست
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاقت کا توازن کیا ہے
کیا گوشت پوست کے ہاتھوں کے مقابلے میں فولادی ہاتھ بہت ضروری ہے
اور وہ جو جنگوں میں مارتے جاتے ہیں، وہ کس کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں
اور وہ جو جنگوں میں مارے جانے والے لوگوں کے گھروں میں
ان کا انتظار دفن ہو جاتا ہے
اور وہ جو سسکیاں فضاؤں میں تیرتی پھرتی ہیں
اور آنسو رخساروں پر لکیریں بناتے پھرتے ہیں
امریکہ میرے دوست
تم سے زیادہ زندگی کی اہمیت بھلا کسے معلوم ہے
تم سے زیادہ انسانی آزادی کا احساس بھلا کسے ہو سکتا ہے
انسان کے معاملے میں تم سے زیادہ سچا کون ہے
لیکن یہ جو سوالات پیدا ہوتے ہیں
اور ہمیں تیز اور نوکیلی نگاہوں سے گھورتے ہیں
اور ہمارے دلوں پر بوجھ ڈالتے ہیں
تمہیں تو پتہ ہے
آنے والا وقت کتنا مشکل وقت ہوگا
لیکن کیا اپنے لیے دوسروں کے منہ سے نوالا چھین لینا
بہتر ہو گا
کچھ لوگ مشرق میں بہت بیمار ہو جائیں گے
اور کچھ لوگوں کے پاس کھانا ختم ہو جائے گا
اور کچھ لوگ ایک دوسرے کو ماریں گے
مغرب میں لوگ بہت اداس ہو جائیں گے
اور بہت اکیلے رہ جائیں گے
اور جنوب میں کچھ لوگ چین سے سو نہیں سکیں گے
اور شمال میں کچھ لوگ سوئے ہی رہیں گے
تمہیں پتہ ہے ایک برا وقت آنے والا ہے
ہو سکتا ہے کہ سب مل کے تمہاری طرف دیکھیں
اور تمہیں مدد کے لیے پکاریں
امریکہ میرے دوست
ایسے میں تم کیا کرو گے
کیا تم انہیں ایسی بیچارگی کے عالم میں تنہا چھوڑ دو گے
بے یار و مددگار
کشمیر میں بہت سارے لوگ اب بھی تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں
وہ تمام مائیں
جن کے گھروں کے صحن ان کے بیٹوں کی قبروں سے بھر گئے ہیں
اور جن کی بینائیاں آنسوؤں نے چھین لی ہیں
وہ تمام بہنیں
جن کی آنکھیں اپنے بھائیوں کی لاشوں سے چندھیا گئی ہیں
اور وہ تمام باپ
جو اپنی اولاد کے خون سے لتھڑی ہوئی مٹی محٖوظ کرتے پھر رہے ہیں
امریکہ میرے دوست
کیا تمہیں پتہ ہے
کشمیر میں اب گھر کم ہیں
قبریں بہت زیادہ ہیں
اتنا تو پانی نہیں بہتا جتنا خون بہتا ہے
ہر نیا دن لاشوں کی پہلی تعداد میں
کافی سارا اضافہ کر دیتا ہے
اور تم نہیں آتے
کشمیر کی جھیلوں کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے
اور پودے مرجھا جاتے ہیں
اور بہت زیادہ پھول
شاخوں پر کھلنے سے پہلے ہی جلا دیے جاتے ہیں
اور تم پھر بھی نہیں آتے
ہر نئے دن بہت سارے بچے کسی نہ کسی حادثے میں
معذور ہو جاتے ہیں
کسی کی آنکھوں میں بارود پڑ جاتا ہے
اور کسی کے جسم پر آگ جا گرتی ہے
اور تم پھر بھی نہیں آتے
امریکہ میرے دوست
کشمیر کے بہت سارے بچوں کو
نیو ورلڈ آرڈر کا کچھ پتہ نہیں
وہ اسے کسی گڑیاں بنانے والی فیکڑی کا نام سمجھتے ہیں
امریکہ میرے دوست
ابھی بہت سارے سوال ایسے ہیں
جو ڈرتے ڈرتے سر اٹھاتے ہیں
حالانکہ دوستوں سے ڈر نہیں لگنا چاہیے
اور نہ ہی دوست کبھی کسی کو ڈرایا کرتے ہیں
لیکن میں تم سے محبت بھی کرتا ہوں
اور تم سے ڈرتا بھی ہوں
اے امریکہ اے میرے دوست
()
اگر زندگی کی کوئی منطق ہے
تو پھر موت کی بھی کوئی منطق ضرور ہو گی
ہو سکتا ہے موت وہ نہ ہو
جو بظاہر نظر آتی ہے
ایک دائرہ ہو جو ہر وقت ہر طرف سفر کرتا رہتا ہے
جبکہ زندگی صرف دو اطراف میں ہی سفر کر سکتی ہے
ایک موت کی طرف
اور دوسری اگلی زندگی کی طرف
زندگی بعض اوقات خود کو بچانے کے لیے
دوسری زندگیوں کو مار دیتی ہے
چاہے وہ دوسری زندگی کوئی درخت ہی کیوں نہ ہو
یا کوئی معصوم پرندہ بھی ہو سکتا ہے
موت اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی کو زندہ نہیں رکھتی
زندگی خود کو یکجا رکھنے کے لیے دوسروں کو بکھیر دیتی ہے
منتشر کر دیتی ہے
اور توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کر دیتی ہے
اور جواب میں خود بھی اسی انجام کی طرف چل پڑتی ہے
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک زندگی بکھر جائے
تو دوسری محفوظ رہے
بس ذرا سا زاویہ بدلتا ہے اور کچھ بھی نہیں ہوتا
البتہ
موت بکھیرتی بھی ہے اور سمیٹ بھی لیتی ہے
منتشر کر دیتی ہے اور لپیٹ بھی لیتی ہے
موت زندگی کی حفاظت نہیں کرتی
اسے مہلت دیتی ہے
کبھی کبھی ہم زمین سے منہ موڑ کے
ستاروں اور سیاروں کی طرف چل پڑتے ہیں
چراغوں کو بجھا ہوا چھوڑ کے
سورج کو چھو لینے کی خواہش میں نکل پڑتے ہیں
زمین کی ویرانی کم نہیں کرتے
اور چاند کو آبد کرنے چلے جاتے ہیں
زمین پر ایک دوسرے کو قید کر دیتے ہیں
اور خلاؤں میں گھومتے پھرتے ہیں
کبھی کبھی
ہم بہت خوش ہوتے ہیں
اور تمام دنیا کے آنسوؤں کو بھول جاتے ہیں
یا درمیان میں کوئی خود فریبی
یا خود غرضی حائل کر دیتے ہیں
یہی وہ وقت ہوتا ہے
جب موت نہایت آہستگی سے
ہمارے اور ہماری زندگی کے درمیان حائل ہو جاتی ہے
اور ہم تھوڑا تھوڑا کر کے
خلاؤں سے واپس گرنا شروع کر دیتے ہیں
یا چاند سے ٹکرا کے سمندر میں جا گرتے ہیں
یا سورج تک پہنچنے سے پہلے ہی جل کر راکھ ہو جاتے ہیں
اور موت ہم پر ہنسنے لگتی ہے
تا کہ ہم سن نہ لیں
اور کہیں نیند سے بیدار نہ ہو جائیں
اور کہیں محتاط نہ ہو جائیں
کبھی کبھی جب ہوا ہمیں محسوس کرتی ہے
اور ہمارے بالوں اور رخساروں کو چھو کے گزرتی ہے
اور ہمیں کچھ کہنا چاہتی ہے
ہم اس وقت زہریلی گیسیں بنانے میں مصروف ہوتے ہیں
اور ایٹم کو ہوا سے ہلکا کرنے کے فارمولے ایجاد کر رہے ہوتے ہیں
ہوا خاموشی سے گزر جاتی ہے
کبھی کبھی
جب ہم وقت کی پیمائش کرتے ہیں
اور سانسوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں
اور آنے والے سو برس پر حاکمیت کے خواب دیکھتے ہیں
تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہونا شروع ہو جاتی ہیں
اور دکھ سر سرا کے بیدار ہونے لگتے ہیں
اور ایک ایک لمحہ طویل ہونا شروع ہو جاتا ہے
اور وقت جاتے جاتے ٹھٹھک کر مڑتا ہے
کچھ دیر ہماری طرف غور کر کے
رخ بدل لیتا ہے
اور زندگی کا مذاق اڑاتا ہے
موت اس وقت بھی ہنستی ہے
کبھی کبھی موت نہیں بھی ہنس سکتی
جب ہم کسی پھول کو غور سے دیکھتے ہیں
اس کی خوشبو سو نگھتے ہیں
اور اسے شاخ سے نہیں توڑتے
جب ہم کوئی گیت سنتے ہیں
اور سن کر ریکارڈ پلیئر کو آن رہنے دیتے ہیں
اور جب ہم
کوئی خوبصورت سا شعر سنتے ہیں
اور اسے محسوس کرتے ہیں
موت اس وقت کوشش کے باوجود ہنس نہیں سکتی
اور جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں اور جنگ کو روکنے نکل پڑتے ہیں
اور جب ہم کسی طاقتور کو دشمن نہیں سمجھتے
اور کمزور کو سہارا دیتے ہیں
موت اس وقت بھی ہنس نہیں سکتی
بلکہ اس وقت تو موت بے اختیار
رو پڑتی ہے
جب امریکہ عدیم اور موت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے
اور عدیم کو موت سے بچا لیتا ہے
اس وقت موت ہنسنے کا سوچ بھی نہیں سکتی
اس وقت صرف زندگی مسکراتی ہے
اور مسلسل مسکائے چلی جاتی ہے
موتیوں کی طرح خالص
اور چشموں کی طرح شفاف
فرحت عباس شاہ