اندر، باہر

اندر، باہر
کوئی اندر بیٹھا روئے
کوئی اندر بیٹھا روئے اور رلائے
مرے اندر چپ کی بستی میں
کسی اجڑے ہوئے مکان کے گہرے کمرے میں
کوئی روئے زار و زار
میں آنکھیں بند کروں تو اک اک ہچکی مجھ میں دور سفر کر جائے
آنکھیں کھولوں
چاروں سمت ہوا کا شور
زمین کے سینے پر گر کے دھول اڑائے
کان پڑی آواز سنائی دیتی دیتی آخر کار کہیں مر جائے
لوگوں کے اوپر لوگوں کا واویلا
کون یہ بوجھ اٹھائے
کس کے پاس بھلا اتنی بھی فرصت
کون اس اندر بیٹھے بیٹھے رونے والے کو خاموش کرائے
کون اس کی آنکھوں سے بہتی آرزوؤں کو چومے
کون اسے سمجھائے
کون اسے سمجھائے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *