جان میں میری جان آئی ہے
تم ہوتے تو رونق ہوتی
تم بن شب ویران آئی ہے
جنگل کی معصوم ہوا تھی
بستی سے حیران آئی ہے
عمر گزاری دھوکے کھاتے
پھر بھی کہاں پہچان آئی ہے
شہر آیا تو دل نے پوچھا
راہ کوئی سنسان آئی ہے
فرحت شام سے ہنس کر بولو
پل دو پل مہمان آئی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)