ہم بھی کیا ہیں بات کسی سے ،وہم گمان کسی کا
وہ تو کچھ اوروں کی خاطر بھی جینا تھا ورنہ
روح میں اب تک پھیل گیا ہوتا سرطان کسی کا
آنکھوں میں آجاتی ہے اک کرماں ماری صورت
رستے میں آجاتا ہے اک گھر ویران کسی کا
ٹھیک ہے خود ہی راہ بدل لیتے ہیں ہم چپکے سے
اسی طرح کر لیتے ہیں رستہ آسان کسی کا
فرحت عباس شاہ