زندگی گھبرا نہیں
پونچھ ماتھے سے پسینہ
حوصلہ رکھ وقت کی کاریگری میں آ نہیں
ہاتھ سے ٹکرا گئی ہے گر کوئی زنجیر بے تعبیر تو بے کل نہ ہو
آنکھ پر بھٹکے ہوئے رستے ٹھکانہ کر چکے ہیں
اور اگر خیمے پڑاؤ سے مزاحم ہیں تو کچھ بے جا نہیں
ریت بنیادوں میں اگنے کے لیے ہے
برف نبضیں منجمد کرنے کو ٹھنڈی سانس لیتی ہے
فلک ہر روز سورج سے برستے بادلوں سے آگ سے سیلاب سے
پاگل ہواؤں سے ہزاروں کام لیتا ہے
اگرچہ دھوپ آتش دان میں گر کر خوشی محسوس کرتی ہے
مگر کمرہ جھلستا ہے
اگر کمرہ جھلستا ہے تو تُو کھڑکی کے رستے
شہر بھر کو گھر میں لے آ
اور اگرچہ دشت کھل اٹھتا ہے
اتنے قافلوں کو ریت کر کے، مار کے
پر تو ستاروں پر نظر مضبوط کر کے دھیان کی روشن رکابوں میں
جما کر پیر صحرا میں اتر
سب خواب گلیوں سے نہیں آتے
سفر کر خیمہ گردوں سمجھ
تعبیر سے شرما نہیں
تو بازگشت نارسائی کو صدا کے تازیانے مار
اور اس بے سروپا ڈر سے دھوکہ کھا نہیں
زندگی گھبرا نہیں
پونچھ ماتھے سے پسینہ حوصلہ رکھ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)