او مرے شور مچانے والے

او مرے شور مچانے والے
شور مچانے والے
اور مرے شور مچانے والے
بند کرو یہ جنگل والا کام
صحراؤں کا خاموشی میں نام
گلی گلی کی اجرک پہنے دکھ کے پھولوں والی
کہاں چلے ہو مالی
باغوں کے رونے سے خوف کسے آتا ہے
کرلانے کی اور کرلاہٹ سنتے رہنے کی یہ عادت
دور دور تک پھیل گئی ہے خالی
جیسے رات ہو کالی
شور مچانے والے او مرے شور مچانے والے
بند کرو یہ چہروں والا کام
ویرانوں کا ویرانی میں نام
کھنڈر کھنڈر کی نکل مارے
کہاں چلے ہو پیارے
ٹوٹی پھوٹی دیواروں سے ہارے
آنکھوں والے دریاؤں کے دھارے
آنکھوں والے دریاؤں کے دھارے
تم کو یاد کریں۔ تم کو یاد کریں
اور شام پکارے شام کہ جس کے ہونٹوں پر ہیں تالے
شور مچانے والے اور مرے شور مچانے والے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *