او مرے گم سم خداوندا
زمانے کی گذیدہ بے زبانی میں
کسی پیوند کاری کا دریدہ سلسلہ کس طاق پر
اور سلسلہ ہائے کلام رنگ و بو کی سرد جنگیں
کس عدوئے ہم زباں سے لڑ رہے ہو
ہم کہ جو فہرست میں شامل نہیں ہیں
اور فقط اک حاشیے کے زیب تک محدود ہیں
اور لاکھ سالہ زندگی کی موت کے انجام میں ہیں
اور پھر تو نے اگر
سب ریتلی مٹی سے ڈھالا ہے
تو پھر عمل فراموشی کی لذت نامناسب ہے
خموشی گو فراموشی کے زمرے میں نہیں آتی
مگر پھر بھی تغافل ہے
خداوندا
اگر آواز تیری بے کراں ہستی کا حصہ ہے
تو آخر اس قدر گہری خموشی کس لیے ہے تو کبھی تو بول
کھل کے بول
اور سب بند پنجرے توڑ دے
او مرے گم سم خدا وندا
وگرنہ ریتلی مٹی بلانا چھوڑ دے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)