اے تمنا اے مری بادل سوار

اے تمنا اے مری بادل سوار
اے تمنا اے مری بادل سوا
آ گلے لگ جا مرے اور کھل کے رو
رو سمندر خشک ہیں بھر دے انہیں
رو کہ دریا جل رہے ہیں ریت میں
راکھ ہوتے جا رہے ہیں خیمہ ہائے زندگی
اور ترے چہرے پہ رنگِ آتشِ نمناک ساکت ہو گیا ہے
روک لے اپنا سفر اور مڑ کے دیکھ
اپنے ان قدموں تلے روندے گئے گم سُم نقوشِ پا اٹھا
رکھ بڑے ہی دھیان سے یہ چھوٹی چھوٹی میتیں دل میں کہیں
سردخانوں کی ضرورت ہی نہیں
ہاتھ میں کافی ہے خالی ہاتھ
تیری بے بسی پر بین کرنے کے لیے
چوم آنکھوں سے خراشیں
آئینوں سے چھیل کر
ان کیفیاتِ حاصل و لاحاصلی سے ہاتھ دھو
کچھ تو ہو اس بے کسی میں کچھ تو ہو
اے تمنا اے مری بادل سوار
آ گلے لگ جا مرے اور کھل کے رو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *