اے خدا مجھ کو بتا

اے خدا مجھ کو بتا
مضمحل ہم ہیں
تو کیوں چاند بھلا سر کو دیے گھٹنوں میں
سو رہا ہے کہ کبھی جاگنے والا ہی نہ تھا
کیوں ہوا سرد ہے
آہوں کی طرح برہن کی
کیوں شجر چپ ہے سرِ دار مسیحا کی طرح
نبض کیوں لگتی ہے خود کار مشینوں جیسی
دھڑکنیں کیوں کسی سُر تال میں ڈھل جاتی نہیں
مضمحل ہم ہیں
تو کیوں راہگذر لاش بنی
اپنے سینے پہ کئی اسپ سہے جاتی ہے
شام بھی گویا کسی بحر المناک کی گہرائی میں
ڈگمگاتی ہوئی چپ چاپ بہے جاتی ہے
ماتمی کیوں ہوئی جاتی ہے فضا جنگل کی
مضمحل ہم ہیں
تو کیوں چاروں طرف
ایک اک چیز کہے جاتی ہے
اے خدا کونسی دنیا میں بسے ہو جا کر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *