اے دل درد منش
ہم تجھے شہر تسلی میں لیے چلتے ہیں
دھند میں لپٹے ہوئے جھوٹ کی گلیوں کا سفر
خود فریبی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اٹی
ہجر کی ویران سڑک
ہر قدم پر کوئی چورستہ بیابانی کی امید سے گھبرایا ہوا
اے دل درد منش
بدنصیبی میں تسلی کیسی
ہر شکایت پہ مچل جاتا ہے مخصوص خدا
خوف میں کیسی دعائیں کہ دعاؤں کے سرابوں کا ہجوم
خوف کا خوف بڑھا دیتا ہے
ہم اسی شہر میں آزاد پھرا کرتے ہیں
جس میں اب قید کی سرداری ہے
قید! بد وضع سلاخوں کے بدن میں ملفوف
قید! پتھریلی فصیلوں سے سجی
قفل درقفل لب و عارضِ بیگانہ روی
فرحت عباس شاہ