جس طرح کوئی سلگا ہوا زخم گزارے
اے رات کہو کیسے لگے اشک ہمارے
جس طرح لگیں ٹوٹے ہوئے چاند ستارے
اے رات کہو کیسی ہے تنہائی ہماری
اک سہما ہوا، درد میں ڈوبا ہوا صحرا
اے رات کہو کس نے کیا تم کو پریشاں
بچھڑے ہوئے اجڑے ہوئے لوگوں نے کیا ہے
اے رات کہو خوش بھی ہوئی ہو کسی لمحہ
شاید کہ کبھی ٹھیک سے کچھ یاد نہیں ہے
اے رات کہو کس نے ترا ساتھ دیا ہے
ہاتھوں میں مرے دکھ نے ہی بس ہاتھ دیا ہے
فرحت عباس شاہ