ہم گرنے لگے درد کی تلوار سے کٹ کر
یونہی تو نہیں بھیگی ہوئی شام کی پلکیں
رویا ہے کوئی ڈھلتے ہوئے دن سے لپٹ کر
جھنجھلایا ہوا صدیوں کے خاموش خدا سے
لوٹا ہے دعاؤں کو زمینوں پہ الٹ کر
اک دشتِ فنا زار میں گم ہونے سے پہلے
دیکھا تھا تمنا نے کئی بار پلٹ کر
کچھ دیر بھی ہو جائے تو مایوس نہ ہونا
آؤں گا مگر اپنے نصیبوں سے نمٹ کر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)