مجھ رات کے مارے کے نگر میں بھی سحر ہو
میں آنسو بہاتا رہوں چلتا رہوں آقا
یوں راہ مدینہ میں مری رات بسر ہو
بندھ جائے اگر سانس کی ڈوری سے ترا ذکر
ممکن ہی نہیں ہے کسی بیماری کا ڈر ہو
میں آنکھ نہ کھولوں کہ کہیں خواب نہ ٹوٹے
میں سر نہ اٹھاؤں کہ بھلے آپ کا در ہو
ہر شاخ پہ اک پھول کھلے اسم محمدؐ
دل میرا ترے عشق میں خوشبو کا شجر ہو
فرحت عباس شاہ