رینگ اے کرب و اذیت روح پر
پر لگا کر اڑنے والے وقت کو
کاش کوئی تو بلالائے یہاں
اور بٹھائے رو بہ رو
اور کہے اس سے
ذرا منہ تو اٹھا
بات تو کر ڈال کر آنکھوں میں آنکھ
۔۔۔۔۔۔
اے حسیں شاموں کے پروردہ نصیبو سوچ لو
وقت طاقت ور نہیں ہے
تم ہی اتنے ناتواں ہو دہر میں
آ گئے ہو لہر میں
لہر دریاؤں میں اور دریا سمندر میں گریں
اور اسی دورانیے میں
وقت کا شہر فنا منہ کھول دے
۔۔۔۔۔۔
دکھ وہ کانٹا ہے جسے پل بھی نگل سکتا نہیں
اے مرے پل اے بے حد و بے کنار
آ مرا کانٹوں بھرا جیون نگل
آ مجھے بھی منہ میں ڈال
چھید ڈالوں گر نہ جسم و جاں ترے تو بولنا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)