ایسی دیوانگی بھلا کب نظر آتی ہے

ایسی دیوانگی بھلا کب نظر آتی ہے
عجیب و غریب نوجوان تھا
بظاہر بہت کمزور اور ناتواں
لیکن آہنی برداشت کا مالک
اور پہاڑ عزم کا وارث
زیادہ بولتا نہیں تھا
بس سنتا رہتا تھا
اور کبھی تو سنتا بھی نہیں تھا
بس سوچتا رہتا تھا
اور کبھی تو سوچتا بھی نہیں تھا
کہیں کھویا رہتا تھا
کھویا رہتا اور بھاگتا رہتا، بھاگتا رہتا، بھاگتا رہتا
اسے بس ایک ہی دھن تھی
وہ ہوا سے زیادہ ہلکا
اور آندھی سے زیادہ تیز رفتار ہونا چاہتا تھا
پھر وہ اپنے کندھوں پہ بھاری بھاری بوجھ اٹھاتا
اور پھر بھاگتا،
بھاگتا رہتا
اپنے آپ کو بوجھ اٹھانے کا عادی بناتا
نوکیلے پتھروں اور سلاخوں پر سوتا
ایک نازک اور لطیف سابدن
ناز و نعم کا پالا ہوا
پھولوں اور کلیوں میں پرورش پانے والا
خوشبو کی باتیں کرنے والا
بارشوں کے خواب دیکھنے والا بدن
ساری ساری رات سلاخوں پر لوٹتا
اور جسم پر پڑنے والے زخم
اور زخموں کے کھرنڈ اور کھرنڈوں پر بن جانے والی گانٹھیں گنتا
گانٹھیں گنتا
اور کم پا کر زخموں کو دوبارہ سلاخوں پر بچھا دیتا
تلواروں سے کھیلتا
اور خنجروں کا مذاق اڑاتا
پتھروں سے ٹکراتا
اور لوہے سے طاقت آزماتا،
آزماتا رہتا، آزماتا رہتا
اور جب تھک جاتا
تو غصے میں اور زیادہ پر جوش ہوجاتا
ارادے فولاد ہوں
تو جسم کو فولاد بنتے کچھ دیر نہیں لگتی
وہ ساری ساری رات
اپنے بازوؤں اور جسم کو
ریاضت کی بھٹی میں تپاتا
اور اسے دیکھنے والے
اسے بتانے والے
اسے سکھانے والے
ششدر رہ جاتے
اور اسے،
پاگل،
دیوانہ
اور جنونی سمجھنے پر مجبور ہو جاتے
ایسی بے باکی
ایسی بے خوفی
ایسی برداشت، ایسا صبر
ایسی دیوانگی
بھلا کب نظر آتی ہے
ایسا شوق، ایسا شوق
ایسا جنون بھلا دیکھنے کو کب ملتا ہے
صدیوں میں ایک آدھ بار جنم لینے والا عشق
قرنوں میں جاکے کہیں پیدا ہونے والا جنون
وہ سورج کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ دیتا
اور صحرا کے دل میں پاؤں
وہ درندوں پہ ہنستا
اور انہیں کمزوری کے طعنے مارتا، ان سے لڑتا
اور سیکھتا
ہار جاتا، تب بھی
جیت جاتا، تب بھی
عجیب و غریب تھا
وہ نوجوان
بہت عجیب و غریب
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *