جیسے اکثر کوئی ہوتا ہے چمن شام کے بعد
ہم کہیں بھی کبھی آباد نہیں ہو سکتے
ہم نے چھوڑا ہے مری جان وطن شام کے بعد
موت کی رونقیں ہوتی ہیں مری آنکھوں میں
اشک پہناتے ہیں خوابوں کو کفن شام کے بعد
جسم سے روح تک آتی ہے مشقت چل کر
اور بڑھ جاتی ہے ہر روز تھکن شام کے بعد
لوریاں دیتا ہے دل ہجر کو ہولے ہولے
تھپتھپاتا ہے ترا درد بدن شام کے بعد
عالمِ خواب میں بھی نیند کے پہلو میں کہیں
جاگتی رہتی ہے ماتھے کی شکن شام کے بعد
یہ جو ہر رات گزرتی ہے بڑی مشکل سے
شاید اس دل کو لگی ہو گی لگن شام کے بعد
پہلے پہلے یہی ہوتا ہے کہ دونوں جانب
مسکراتی ہے محبت کی کرن شام کے بعد
یوں تڑپتی ہے تری یاد مرے کمرے میں
کوئی پرچھائیں کرے جیسے جتن شام کے بعد
تُو تو خوش ہے نا مجھے شب کے حوالے کر کے
دیکھ جا آ کے کبھی دل کا چلن شام کے بعد
اب تو بے چینی کا معمول ہوا ہے فرحت
بھیج دیتی ہے مری سمت جلن شام کے بعد
فرحت عباس شاہ