رہ رہا ہوں شباب میں یارو
ڈر گیا ہوں بُرے زمانے سے
چھُپ گیا ہوں کتاب میں یارو
مجھ کو لگتا ہے آپ کی خوشبو
بس گئی ہے گلاب میں یارو
ساری دنیا کے غم سمائے مرے
درد کے ایک باب میں یارو
اب نہیں کوئی بھی کہ جو فرحت
جا رہے ماہتاب میں یارو
کچھ نہیں سوجھتا غزل کے سوا
عالمِ اضطراب میں یارو
اس کی تصویر کیوں اُبھرتی ہے
آسماں پر سحاب میں یارو
فرحت عباس شاہ