ایک طویل رات

ایک طویل رات
اور ایک طویل دکھ
اور ایک طویل خاموشی
اور ایک طویل ویرانی
اور ایک طویل جدائی
ایک ہی بات ہے
ایک طویل موت کی طرح
جو ہم جھیلتے رہتے ہیں، جھیلتے رہتے ہیں
کبھی آنکھوں پر
کبھی دل پر
کبھی اپنی سماعتوں پر
تو کبھی اپنی رونقوں پر
کبھی محبت پر
تو کبھی اپنی روح پر
ویسے تو یہ سب بھی ایک ہی بات ہے
ایسے وعدوں میں گھری ہوئی ہماری زندگیاں
جو ہم نے کیے ہی نہیں
ہم جو کبھی بہت چھپ چھپا کے
گھنٹوں بیٹھ کے روتے ہیں
یہ سب ایسا کچھ بے وعدہ بھی نہیں
یہ جو ہم کبھی کسی کھوئے ہوئے پل کے اچانک مل جانے سے
آپ ہی آپ بے اختیار ہنس دیتے ہیں
یہ بھی وعدہ ہی ہے
جو پتہ نہیں کس نے کس سے کر رکھا ہے
ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا وعدہ
جسے شاید ہم چاہیں بھی تو توڑ نہیں سکتے
ایک طویل رات نے
ہمیں اچانک گھیر لیا ہے
ایک طویل دکھ
ہمارے اوپر آن گرا ہے
ایک طویل خاموشی ہمیں کچھ بھی کہنے نہیں دیتی
ایک طویل ویرانی ہمارے اندر پیدا ہوگئی ہے
ایک طویل جدائی ہمارے حصے میں آئی ہے
اور ایک طویل موت
جو ہمیں لاحق ہے
پتہ نہیں یہ سب کس کے وعدے ہیں
کس نے کیے تھے
کس نے نبھائے تھے
لیکن ہم نے تو کبھی گلہ بھی نہیں کیا
اور کس سے کرتے
اور کس کا کرتے
اور شاید اب بھی نہ کریں
ہوا اور خلا
شاید گلہ سنتے ہی نہیں
نا ہی سن سکتے ہیں
باقی رہا خدا
تو اس کو بیچ میں نا ہی لائیں تو بہتر ہے
یہ تو ہمارا اور ہمارا آپس کا معاملہ ہے
اگرچہ وعدے پھر بھی ہمارے نہیں ہیں
بلکہ ہمیں تو بس بھگتنے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *