تیری خواہش کی قسم
مستقل دکھ نے طبیعت ہی بدل ڈالی ہے
جھوٹے موٹے کسی بہلاوے سے
ہم بھلا کب تھے بہلنے والے
تیرے جیون کی قسم
ہجر اور موت نے توڑا ہے ہمیں
چھوٹی موٹی کسی ویرانی سے
ہم بھلا کب تھے بکھرنے والے
تجھ کو معلوم ہے ہم تیری خوشی کی خاطر
غم کے آداب بھلا بیٹھے ہیں
تیری آنکھیں ہوں یا سانسیں ہوں یا تنہائی ہو
ہم کو اک بہتے ہوئے زخم نے محتاج بنا ڈالا ہے
ورنہ ہم کب تھے بھلا بچ کے گزرنے والے
ہم نے اس بار یہ سوچا ہے کہ ہم تیرے لیے
تیرے انداز سے چاہیں گے تجھے
تجھ سے ہی مشوری مانگیں گے ترے بارے میں
بادشاہوں کی طرح رکھیں گے اس بار محبت کا بھرم
ہم نے یہ سوچ لیا ہے اس بار
ہار اور جیت کو اس کھیل میں رکھنا ہی نہیں
غیر مشروط محبت کی طرح ڈالیں گے
جس قدر اشک ہماری کسی بنیاد میں ہیں
جس قدر ہجر نصیبوں میں ملا ہے ہم کو
جس قدر شاملِ احوال ہے بے چینی سی
جس قدر سینے میں آباد ہے اک حسرت و یاس
جس قدر ایک خلش اور ہے اک اور خلش کے اندر
تیرے اجڑے ہوئے دل پر قرباں
تیرے مضبوط ارادوں کی تھکن اور تھکن کے سائے
درد کو دل میں سمونے کے لیے کافی ہیں
تیرے ہر صبر کی بیمار ہنسی کے آنسو
شام کی مانگ ڈبونے کے لیے کافی ہیں
رات کا دامنِ صد چاک بھگونے کے لیے کافی ہیں
چاند کو چھونے کی خواہش میں جلا بیٹھے ہیں پوریں اپنی
اور ستاروں سے گلے ملنے کے سپنوں سے ہمیں توڑ کے
ویرانوں میں لا پھینکا گیا
ہم تو جیسے بھی ہیں برباد ہیں دل کے ہاتھوں
اب یہ سوچا ہے کہ بس رکھیں گے تجھ کو آباد
تیری خواہش کے مطابق ترے انداز سے چاہیں گے تجھے
غیر مشروط محبت کی طرح ڈالیں گے
ہم تجھے چاہیں گے بے چین ہواؤں کی طرح
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)