انگارہِ شب
آنکھ کی نمناک ہتھیلی پہ دھرا ہے
چھالوں سے بھری آنکھ کی نمناک ہتھیلی
اک خواب تھا دروازہ نما، شہر صفت، خواب پریشاں
اُس خواب کی دہلیز پہ تم آئے نہیں ہو
کچھ رنگ تھے میرے ترے جادو کا بھرم
گیت تھے اور جھیل تھی اک تیرے خیالوں کے کنارے پہ جو تم لائے نہیں ہو
یہ بستی ، یہ تن سوختہ ویرانیءِ جاں
ڈوبتے سالوں سے بھری، مُردہ وصالوں سے بھری ہے
تم سائے نہیں ہو
تم سائے نہیں ہو کہ تمہیں چھو بھی نہ سکتے
ہر لمحہ کسی کانپتے ارماں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اٹا روپ ہمارا ہی تو ہے
روپ کہ اب جس کی چتا کتنے سوالوں سے بھری ہے
اور راکھ کے دریاؤں کا الزام بھی ہے ہم پہ کہ، تم دھوپ میں ہو، چھاؤں میں ہو یا کسی برسات میں، کملائے نہیں ہو۔
دل ہے کہ سلگتا ہوا اک دشتِ رفاقت ہے کسی لمحہِ ویران کا اور اس میں کئی عکس ہیں۔
تم عکس اگر ہو بھی تو دھندلائے نہیں ہو
غم ہے کہ کنارا بھی دکھائی نہیں دیتا اور ہم ہیں کہ جیسے کہیں سہمی ہوئی تاریک فضاؤں میں لٹکتا ہوا جیون
جیون ہے کہ اک ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے خواب میں محصور
وہ خواب کہ دروازہ نما، شہر صفت، خواب پریشاں
جس خواب کی دہلیز پہ تم آئے نہیں ہو
انگارہِ شب
آنکھ کی نمناک ہتھیلی پہ دھرا ہے
اک جلتی سلگتی ہوئی نمناک ہتھیلی
حیرت ہے کہ تم آج بھی پچھتائے نہیں ہو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)