انگلیاں بھی تھوڑی ہیں اور حساب بھی کم ہیں
بے شمار تارے ہیں بے شمار آنکھیں ہیں
بے خیال گنتی میں رات ڈوب جاتی ہے
چھوڑ کر چلے تو ہو تجربے کی خواہش میں
تم نے یہ نہیں سوچا میں تمہارا موسم ہوں
ہم بہت ہی کافر ہوں تم کو منہ لگائیں تو
تم نہ کوئی رستہ ہو تم نہ کوئی راہی ہو
تم کو لوٹ جانا تھا لوٹ ہی گئے آخر
آدمی کی صحبت میں آدمی ہی رہتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)